*قیامت کے دن کیا کام آئے گا*؟

وَاتَّقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ يَوْمًا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَّا تَجْزِي۔      ۔۔۔۔۔نَفْسٌ  ۔۔۔۔۔عَن ۔۔۔۔
اور ڈرو  ۔۔۔اس دن سے ۔۔۔ نہیں کام آئے گا ۔۔۔ نفس ۔۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ 
 نَّفْسٍ ۔۔۔۔۔    شَيْئًا ۔۔۔۔۔   وَلَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  يُقْبَلُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     مِنْهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شَفَاعَةٌ ۔۔
نفس ۔۔۔ کچھ بھی ۔۔۔ اور نہ ۔۔۔ قبول کیا جائے گا ۔۔۔۔ اُس سے ۔۔۔۔ سفارش ۔۔۔۔۔ 
وَلَا يُؤْخَذُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔        مِنْهَا ۔۔۔۔    عَدْلٌ ۔۔۔۔۔   وَلَا هُمْ ۔۔۔۔۔۔يُنصَرُونَ.  4️⃣8️⃣
اور نہیں لیا جائے گا ۔۔۔ اس سے ۔۔۔۔ بدلہ ۔۔۔۔ اور نہ وہ ۔۔۔ مدد کئے جائیں گے 
وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ.   4️⃣8️⃣
اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص کسی کے کچھ کام نہ آئے گا  اور نہ اس کی طرف سے کوئی سفارش قبول ہو گی اور نہ اس کی طرف سے بدلہ لیا جائے گا  اور نہ ان کو مدد ملے گی ۔ 

یَوْمٌ ۔ ( دن ) ۔ یہاں دن سے مراد یومِ قیامت ہے ۔ دنیاوی لذتوں کو چھوڑنے اور نیک کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دین میں جزاء سزا کا یا آخرت کا عقیدہ موجود ہو ۔ تاکہ لوگ اس دن کے خیال سے برے کام چھوڑ دیں ۔ اور انعام کی امید پا کر نیک کام کریں ۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے دلوں سے قیامت کا یقین اُٹھ چکا تھا ۔ اس لئے انہیں یومِ آخر کی تنبیہ کی جاتی ہے ۔ 
عَدْلٌ ۔ ( بدلہ ) ۔ عدل کے معنی ہیں برابری ) ۔ اگر کسی چیز کا معاوضہ یا فدیہ دیا جائے ۔ تو وہ اصل کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ اس لئے بدلہ کے لئے عدل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس کے معنی انصاف کے بھی اس لئے لیے جاتے ہیں کہ انصاف کرنے سے دونوں فریقوں میں برابری ہو جاتی ہے ۔ 
یہودیوں کا خیال تھا کہ ہم کیسے ہی گناہ کریں ۔ ہم پر عذاب نہ ہو گا ۔ ہمارے باپ دادا پیغمبر تھے ۔ وہ ہمیں بخشوا لیں گے ۔ الله جل شانہ فرماتا ہے اُن کا یہ عقیدہ بالکل غلط ہے ۔ مجرم کو اپنے گناہ  کی سزا بھگتنا ہی پڑے گی ۔ 
عام طور پر مجرم کو چُھڑا لینے کی چار صورتیں ہوتی ہیں ۔ 
اول :- کوئی دوسرا شخص مجرم کا جرم اپنے سر لے لے ۔ 
دوم :- یہ کہ اس کی سفارش کر کے چھڑا لے ۔ 
سوم :- یہ کہ کوئی فدیہ وغیرہ دے کر بری کروائے ۔ 
چہارم :- یہ کہ زبردستی چھڑا لے ۔ 
ان چاروں صورتوں میں کوئی صورۃ بھی ایسی نہیں جو قیامت کے دن کام آ سکے گی ۔ 
قیامت کے روز ہر شخص کو اپنی فکر ہو گی ۔ الله جل جلالہ کی مرضی کے بغیر کوئی شخص کسی دوسرے کی سفارش نہ کر سکے گا ۔ الله جل جلالہ کو مال و دولت کی ضرورت نہیں کہ وہ فدیہ قبول کرے ۔ اور زمین و آسمان کے اندر کوئی ایسی طاقت نہیں جو الله جل جلالہ کو عاجز کر سکے ۔ اور مجرم کو الله تعالی کے ہاں سے زبردستی چھڑا لے ۔ 
یہ باتیں بتا کر الله تعالی نے یہودیوں کے عقیدہ کو باطل اورغلط قرار دیا ہے  اور انہیں تلقین کی ہے کہ وہ قیامت کا خوف کر کے راہ راست پر آجائیں ۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
ہمارے لئے غور کرنے کا مقام ہے کہ کہیں ہم نے بھی یہ عقیدہ تو نہیں بنا لیا کہ ہم جو مرضی کرتے رہیں ہم پر پکڑ نہیں ہوگی ۔ اور ہم الله تعالی کی گرفت سے بچ جائیں گے ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں