*اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت*

 أَتَأْمُرُونَ             ۔ النَّاسَ      ۔ بِالْبِرِّ      ۔ وَتَنسَوْنَ       ۔ أَنفُسَكُمْ     
کی تم حکم دیتے ہو ۔ لوگ ۔    نیکی کا ۔ اور تم بھول جاتے ہو ۔ اپنی جانوں کو   
وَ ۔                   أَنتُمْ       ۔ تَتْلُونَ      ۔ الْكِتَابَ     ۔ أَفَلَا      ۔     تَعْقِلُونَ۔   4️⃣4️⃣
اس حالت میں کہ ۔ تم ۔ تم پڑھتے ہو ۔     کتاب ۔ پھر کیوں نہیں ۔ تم عقل کرتے 

أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.   4️⃣4️⃣
کیا تم لوگوں کو نیک کام کرنے کا حکم دیتے ہو ۔ اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو  حالانکہ تم تو کتاب بھی پڑھتے ہو پھر کیوں نہیں سوچتے ۔ 

اَلْبِرّ ۔ (نیکی ) ۔  برّ۔ کے معنی نیکی اور احسان کے ہیں ۔ اس میں خوش خلقی ، پُرخلوص عبادات اور اچھے معاملات سب شامل ہیں ۔ اس کا متضاد و مقابل  اثم  ہے ۔ 
الکتٰب ۔۔۔۔ یہاں کتاب سے مراد تورات ہے ۔ جس میں یہود کے لئے نیک اخلاق ، عبادات اور دینی معاملات کے سب احکام تفصیل سے موجود ہیں ۔ 
جب کسی قوم کی تباہی کے دن آتے ہیں تو اس کے اندر جاہ طلب اور آرام کے بھوکے علماء اور لیڈر پیدا ہو جاتے ہیں ۔ جو لوگوں کو بظاہر ہر وقت وعظ و نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ اپنی عادتیں درست کرو ۔ دوسروں سے معاملات کرتے وقت ایمانداری صداقت اور ہمدردی سے کام لو ۔ جھوٹ مت بولو ۔ فریب مت دو ۔ نماز پڑھو ۔ روزے رکھو ۔ دوسروں کی خدمت کرو ۔ لیکن خود ان میں سے ایک بات پر بھی عمل نہیں کرتے ۔ دنیاوی عیش و آرام کے علاوہ اُن کی کوئی غرض نہیں ہوتی ۔ دوسرے لوگوں پر بھی وہ نصیحتوں کا صرف اتنا اثر چاہتے ہیں کہ صدقات کے نام پر خود اُن کو خوب نذر نیاز ، تحفے تحائف دیتے رہیں ۔ تاکہ انہیں خوب گلچھڑے اُڑانے کا موقع ملے ۔ 
 بنی اسرائیل کے علماء میں یہی بات پیدا ہو چکی تھی ۔ وہ فقط دنیاوی مال و دولت ، نام اور شہرت کے طالب تھے ۔ اگر ان کا  یہ ارادہ اس غرض سے ہوتا کہ لوگوں کو اپنے اثر سے نیکو کار بنائیں گے تو یقینا قابلِ تعریف ہوتا ۔ لیکن دوسروں کو نیک بنانے سے پہلے خود نیک بنیں وہ اس سے کوسوں دور تھے ۔ 
 اس آیت میں علماء کو شرم دلائی گئی ہے ۔ کہ تم یہ کیا کرتے ہو ؟
 لوگوں کو سچ کی ہدایت کرتے ہو اور خود سچائی کے قریب بھی نہیں آتے ۔ کیا تمہاری غرض صرف یہ ہے کہ لوگ تمہیں ہادی اور رہنما مانیں ۔ تمہاری خدمت کرتے رہیں ۔ اور تمہاری ہر سچی جھوٹی بات میں ہاں میں ہاں ملاتے رہیں ۔ حیف ہے تم پر کہ تم تورات پڑھتے ہوئے بھی ظاہر داری کے قائل ہو ۔ اور اپنی اصلاح سے بالکل غافل ہو ۔ عقل کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ راست بازی میں انسان دوسروں کو خود مثال بن کر دکھائے ۔ تم اُلٹا لوگوں کو دھوکا دینے کے مجرم ہو ۔ اگر تم دوسروں کو نصیحت کرنے میں مخلص ہو تو پہلے خود عمل کرکے دکھاؤ ۔ 
   یہود کو یہ سمجھانا اور ڈرانا زیادہ مفید ثابت نہ ہوا ۔ البتہ قرآن مجید کو سچی کتاب ماننے والے عالموں کے لئے اس آیت میں ایک بڑے کام کی نصیحت پوشیدہ ہے ۔وہ یہ کہ *دوسروں کو درست کرنے سے پہلے اپنی درستی کا بندوبست کریں ۔ کیونکہ علماء کا عیش پرست ، فریبی اور ریا کار ہو جانا قومی تباہی کا پیش خیمہ ہے* 
درسِ قرآن ۔۔۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں