نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*موت کے بعد زندگی*

ثُمَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بَعَثْنَاكُم ۔۔۔۔۔۔۔ مِّن ۔۔۔۔۔۔ بَعْدِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَوْتِكُمْ 
پھر ۔۔۔۔۔ اٹھایا ہم نے تم کو ۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔۔ بعد ۔۔۔۔ موت تمہاری 
لَعَلَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔تَشْكُرُونَ۔  5️⃣6️⃣
تاکہ تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم شکر کرو 

ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.   5️⃣6️⃣
پھر ہم نے تمہیں تمھاری موت کے بعد اٹھا کھڑا کیا تاکہ تم احسان مانو ۔۔۔ 

الله تعالی بنی اسرائیل کو ایک ایک کر کے اپنے احسانات یاد کروا رہا ہے ۔ تاکہ وہ اُن کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بُرے کاموں کو چھوڑ دیں اور سیدھی راہ پر لوٹ آئیں ۔ 
اس آیت میں سابقہ واقعہ تسلسل سے بیان ہو رہا ہے ۔ جب بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے کہا کہ ہم تو الله تعالی کو اپنی ظاہری اور مادی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔ تو ان کی اس گستاخی کی وجہ سے ان پر بجلی گری اور وہ سب مر گئے ۔ موسٰی علیہ السلام نے جب یہ دیکھا ۔ تو عرض کیا اے پروردگار میں ان لوگوں کو بنی اسرائیل کے سامنے گواہی دینے کے لئے لایا تھا ۔ اب یہ مر گئے ۔ میں قوم کو کیا جواب دوں گا اور اُن کے سامنے کیا دلیل پیش کروں گا ۔ الله تعالی نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا ۔ 
اس آیت میں الله تعالی نے بنی اسرائیل کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ اور ارشاد فرمایا ہے کہ تم میرے اس احسان کو یاد کرو ۔ کہ میں نے تمہیں موت کے بعد دوبارہ زندگی بخشی ۔ اور اس کا شکر ادا کرو ۔ شکر ادا کرنے کی صرف یہی صورت ہے ۔ کہ بے دینی اور گمراہی چھوڑ کر الله جل جلالہ کا حکم بجا لاؤ ۔ 
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے ۔ کہ الله تعالی کے حضور میں گستاخی اور اس اعلٰی ذات سے بے جا مطالبہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ اور اس کی سخت سزا ہے ۔ ان لوگوں نے الله تعالی کو اپنی آنکھوں سے بے حجابانہ دیکھنے کی آرزو کی ۔ حالانکہ یہ بشر کے حوصلہ سے  بہت بلند بات تھی ۔ اس گستاخی کی اُن کو سزا ملی ۔ 
ہمیں بھی چاہئیے کہ الله جل جلالہ اور اس کے محبوب صلی الله علیہ وسلم کی ہر بات بلا چون و چرا مان لیا کریں ۔ اس میں خواہ مخواہ کی نکتہ چینی ، دلیل بازی اور حجتیں پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ کیونکہ اس طرح انسان میں غلط اور فضول بحث کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے ۔ اور جو لوگ فضول بحثیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں وہ ہمیشہ عمل سے جی چراتے ہیں ۔ وہ صرف باتوں کے دہنی ہوتے ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...