*مفعول معہ*

مفعول معہ ۔۔ اس مفعول منصوب کو کہتے ہیں جو "واو معیت 
with 
کے بعد فعل کے معمول  کا ساتھی یا شریک بن کر آتا ہے ۔ مثال سے سمجھو 
سِرْتُ والنّھر 
میں نہر کے ساتھ چلی ۔ 
اور 
سَافَر النَّاسُ  و الظَّلاَ مَ 
لوگوں نے تاریک کے ساتھ ساتھ سفر کیا ۔ 
ہر جملے میں پہلے ایک فعل اپنے معمول کے ساتھ آیا ہے ۔ اس کے بعد "واو" ہے جو مع کے معنی میں ہے ۔ اس کے بعد ایک اسم آیا جو " منصوب " ہے یہ اسم فعل کا معمول نہیں بلکہ ساتھی  بن کر آیا ہے ۔ 
ترکیب دیکھو ۔۔۔ 
سِرْتُ وَ النَّھْرَ 
سِرْتُ ۔۔۔ سار ۔۔ فعل اور اس میں ۔۔۔ "تُ" ضمیر متصل فاعل ہے ۔ اس کے بعد مع کے معنی میں "و"  اور "و" کے بعد النھرَ  اسم ۔۔ منصوب  آیا ہے ۔ جو فعل کے معمول یعنی ضمیر واحد  متکلم "تُ" کے ساتھ چلنے میں شریک ہے ۔ 
مطلب یہ ہوگا ۔۔۔ میں ندی کے ساتھ ساتھ چلی ۔۔۔ یعنی چلنے کے دوران ندی میرے ساتھ ساتھ رہی ۔ 
اسی طرح ۔۔ 
سَافَرَ النَّاسُ وَ الظَّلامَ 
سافر ۔۔۔ فعل ۔۔۔ النّاس ۔۔۔ فاعل  اس کا معمول ہے ۔۔۔ واؤ مع کے معنی میں اور اس کے بعد " الظّلام" منصوب ہو کر آیا ہے ۔ جو فعل کے معمول یعنی " النّاس " کا سفر کے دوران شریک رہا ۔۔۔ مطلب یہ ہوا کہ ۔۔۔ لوگوں نے تاریکی کے ساتھ ساتھ سفر کیا ۔۔۔ یعنی لوگوں کے سفر کے دوران تاریک بھی ساتھ رہی ۔ 
خوب دھیان سے سمجھ لو ۔ 
مفعول کی حالت نصبی ۔۔۔ یعنی ۔۔ زبر والی ہوتی ہے 
علم النحو ۔۔۔ میں 
بعض اوقات کلمہ پر  " زبر " نظر نہیں آتی لیکن  اس کی حالت  نصبی ہوتی ہے ۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں